Header advertisement
sidebar advertisement

قومی خبریں

تعلیم و روزگار

“بہار میں تعلیم، صحت اور روزگار کا بحران”، کنہیا کمار کا خصوصی انٹرویو۔

کنہیا کمار نے 'پلاین روکو، نوکری دو' یاترا کے دوران کہا کہ بہار میں تعلیم، صحت اور روزگار کے فقدان کے سبب انسان ساختہ پلاین ہو رہا ہے۔ کروڑوں لوگ ایسی ریاستوں میں مقیم ہیں، جہاں کی زبان وہ نہیں جانتے

بہار میں اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس کی ‘پالاین روکو، نوکری دو’ یاترا کی میڈیا میں بھلے ہی زیادہ چرچا نہ ہو رہی ہو لیکن عام لوگوں میں اس کی خوب گونج سنائی دے رہی ہے۔ خاص طور پر شمالی بہار میں لوگ اس پر بات کر رہے ہیں۔ 16 مارچ کو چمپارن کے گاندھی آشرم سے شروع ہوئی یہ یاترا 14 اپریل کو پٹنہ میں مکمل ہوگی۔ اس یاترا کی قیادت کانگریس لیڈر کنہیا کمار کر رہے ہیں۔ اس میں عام طور پر کانگریس کارکنان اور تقریباً 100 بے روزگار نوجوان شریک ہیں۔ ‘نیشنل ہیرالڈ/سنڈے نو جیون’ کے لیے وِشودیپک نے سمستی پور کے مُسری گھراری میں کنہیا کمار سے بات کی۔ پیش ہیں اس اہم اقتباسات:

سوال: یاترا کا نام ‘بہار جوڑو’ یاترا یا سیدھے سیدھے ‘روزگار دو’ یاترا بھی ہو سکتا تھا۔ اس کا نام ‘پالایَن روکو، نوکری دو’ یاترا کیوں رکھا؟

جواب: اس لیے کہ بہار سے جڑا ہر مسئلہ بالآخر پالاین سے ہی جڑا ہے۔ تعلیم کی بات کریں تو ریاست کا تاریخی پس منظر بہت شاندار ہے۔ بہار کو نالندہ یونیورسٹی پر فخر ہے، جو علم کا عالمی مرکز رہی ہے۔ جدید دور میں بھی 1907 میں قائم ہوئی پٹنہ یونیورسٹی سب سے قدیم جامعات میں شامل ہے۔ لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اسکول کی تعلیم کے لیے بھی طلبہ کو بہار سے باہر جانا پڑتا ہے۔

صحت کے معاملے میں بھی یہی حال ہے۔ یو پی اے حکومت نے پٹنہ میں ایمس کھولا تھا، لیکن بہار کے لوگ آج بھی علاج کے لیے دہلی ایمس کا رخ کرتے ہیں۔ تیسرا مسئلہ ہے روزگار کا۔ یہاں بے روزگاری کی شرح قومی اوسط سے زیادہ ہے۔ تربیت یافتہ مزدوروں کی قلت ہے، کیونکہ یہاں کے لوگ بہتر کمائی کے لیے ریاست سے باہر جا رہے ہیں۔ مزدوروں کو دوسری ریاستوں میں لے جانے کے لیے ‘شرم جیوی ایکسپریس’ تک چلتی ہے۔

پالاین روکنے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام ڈبل انجن حکومت ہر تہوار پر فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔ بہار کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی لیے ہم نے اپنی یاترا کا مرکز بہار سے ہونے والے پالاین کو بنایا۔

سوال: اب تک اس مسئلے کو اوروں نے صحیح طریقے سے کیوں نہیں اٹھایا؟

جواب: ایسا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ سبھی کو معلوم ہے اور کئی لوگوں نے اسے اپنے اپنے انداز میں اٹھایا بھی ہے۔ یہ کوئی طبقاتی یا مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر برادری اس سے متاثر ہے۔ ہولی اور چھٹھ پر ہندو اور عید پر مسلمان ٹرینوں میں ریزرویشن کے لیے جوجھتے ہیں۔

یہ مسئلہ کسی ایک ذات یا طبقے تک محدود نہیں ہے۔ برہمن ہو یا دلت، امیر ہو یا غریب، سبھی روزگار کے لیے بہار چھوڑ رہے ہیں۔ یہ انسان ساختہ پالاین ہے، کیونکہ یہاں تعلیم، صحت اور روزگار کا فقدان ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بہار سے اب تک دو کروڑ لوگ دوسری ریاستوں میں جا چکے ہیں، حتیٰ کہ وہ ان علاقوں میں بھی جا رہے ہیں جہاں کی زبان تک نہیں جانتے، جیسے تمل ناڈو، کیرالہ، کرناٹک، گجرات اور شمال مشرقی ریاستیں۔

سوال: کیا آپ مقامی مسائل بھی اٹھا رہے ہیں؟

جواب: بالکل۔ اس یاترا کے دوران ہم نے کئی مقامی مسائل اٹھائے ہیں۔ نیٹ اور پیپر لیک کا معاملہ اجاگر کیا ہے۔ بند پڑی شوگر ملوں کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ ہم نے مظفرپور میں آٹو ڈرائیوروں سے ملاقات کی اور خواتین آٹو ڈرائیوروں کے مسائل پر بات کی۔ بھارت مالا پروجیکٹ کے تحت کسانوں کی زمین لی گئی تھی، لیکن انہیں مناسب معاوضہ نہیں دیا گیا۔ ہم نے اس مسئلے کو بھی اجاگر کیا۔ ہماری کوشش ہے کہ عوامی مسائل کو حکومت کے سامنے لایا جائے۔

سوال: اسمبلی انتخابات میں صرف سات ماہ باقی ہیں۔ ممکنہ اثر کے لحاظ سے کیا اس یاترا میں دیر نہیں ہو گئی؟

ک. نہیں، بالکل نہیں۔ کانگریس کوئی این جی او نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت ہے اور بہار میں انتخابات لڑے گی۔ لیکن اس یاترا کا مقصد صرف انتخابی فائدہ حاصل کرنا نہیں ہے۔ اس کا مقصد عوامی مسائل کو سمجھنا ہے تاکہ ہم اپنے منشور میں ان مسائل کو شامل کر سکیں۔

ویسے بھی جب ہم نے بھارت جوڑو یاترا یا بھارت جوڑو نیائے یاترا نکالی تھی، تب بھی انتخابات ہو رہے تھے اور یہی سوال اٹھائے گئے تھے۔ اسی طرح میں نے جب سی پی آئی کے بینر تلے ‘جنگن من یاترا’ نکالی تھی، تب بھی انتخابی سوالات ہوئے تھے۔ لیکن ہماری یاترا کا مقصد صرف ووٹ بینک حاصل کرنا نہیں بلکہ عوامی مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔

سوال: سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بہار میں کانگریس کی مضبوطی کا مطلب ہے کہ مہاگٹھ بندھن کے اتحادیوں کی کمزوری۔ آپ کا اس پر کیا کہنا ہے؟

جواب: کانگریس ریاست میں گزشتہ 35 سال سے اقتدار میں نہیں ہے۔ ہمیں عوام کے ساتھ دوبارہ جڑنا ہوگا۔ یہ کانگریس کی پرانی روایت ہے کہ ہم عوامی مسائل کو ترجیح دیتے ہیں۔ جن لوگوں کو آئین بچانے میں دلچسپی ہے اور جو عوامی مسائل پر کام کرنا چاہتے ہیں، امید ہے وہ کانگریس کے پلیٹ فارم کا استعمال کریں گے۔ ہمیں سیاسی حساب کتاب سے زیادہ عوامی مسائل پر دھیان دینا ہے۔

سوال: آپ پر الزام ہے کہ 2019 کا لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد آپ بہار سے غائب ہو گئے؟

ک. یہ بالکل غلط ہے۔ 2019 میں الیکشن لڑنے کے بعد میں نے سی پی آئی کے بینر تلے ‘جن گن من یاترا’ کی۔ اس دوران میں نے مہاگٹھ بندھن کے لیے بھی انتخابی مہم چلائی۔ میں نے آر جے ڈی، لیفٹ اور کانگریس کے لیے تشہیر کی۔ بعد میں کووڈ کے دوران سیاسی سرگرمیاں رک گئیں۔ پھر میں بھارت جوڑو یاترا اور بھارت جوڑو نیائے یاترا میں شامل ہوا اور 2024 کا انتخاب لڑا۔ لوگوں نے دہلی سے میرا الیکشن لڑنا تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن لوک سبھا الیکشن کوئی بھی کہیں سے بھی لڑ سکتا ہے۔

سوال: لوگ آپ کا موازنہ تیجسوی یادو سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے بڑھتے قد سے کانگریس اور مہاگٹھ بندھن کے کچھ گٹ پریشان ہیں۔ آپ کیا کہیں گے؟

جواب: یہ یاترا نہ میرے بارے میں ہے اور نہ تیجسوی کے بارے میں۔ یہ عوام کے مسائل کے بارے میں ہے۔ شاید میڈیا نے اسے مسالہ لگا کر پیش کیا ہے کیونکہ پالاین، تعلیم اور روزگار جیسے مسائل میں کوئی مسالہ نہیں ہوتا۔ میری یاترا کسی ایک پارٹی یا لیڈر کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد عوامی مسائل کو سمجھ کر ان کے حل پر غور کرنا ہے۔ یہ کوئی مقبولیت کی دوڑ نہیں ہے۔ ہمارا مقصد عوام کی آواز بننا ہے، نہ کہ کسی شخصیت کی تشہیر کرنا۔

No Comments:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *