پوری دنیا میں جہاں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئے محصولات کا ذکر زور و شور سے ہو رہا ہے، وہیں ہندوستان میں جس موضوع پر سب سے زیادہ بحث ہو رہی ہے، وہ ’امید‘ یعنی وقف ترمیمی بل کے لوک سبھا سے منظور ہونے کے بعد جنتا دل یو اور تیلگو دیشم پارٹیوں کے رخ پر ہو رہی ہے۔ دیکھئے، ہندوستان میں وقف ترمیمی بل کے ساتھ جو ہوا ہے وہ عین توقع کے مطابق ہے۔ جبکہ بہت سارے یو ٹیوبرس والوں کو کچھ الٹ پھیر کی امید تھی۔ ان یوٹیوبرس نے جنتا دل یو اور تیلگو دیشم پارٹیوں کو مرکز کے ساتھ سودے بازی کرنے کے لئے ایک موقع ضرور فراہم کر دیا تھا کہ جیسے بہت مشکل حالات میں وہ پارٹیاں اس بل کی حمایت کریں گی۔ لیکن جو برسر اقتدار جماعت ہوتی ہے وہ اقتدار کے روشن دان سے واضح تصویر دیکھ سکتی ہے، اور اس کے حساب سے اپنے قدم اٹھا سکتی ہے۔
اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس بل کے منظور کرانے کے لئے برسر اقتدار مرکزی حکومت نے اس طرح ہٹ دھرمی کیوں کی ہوئی تھی اور حزب اختلاف کے اتحاد کو اس بل کی مخالفت سے کیا فائدہ ہونے جا رہا ہے۔ جہاں تک برسر اقتدار اتحاد کا تعلق ہے، اس کو اس بل سے دو بڑے فائدے ہوئے۔ پہلا یہ کہ جس پارٹی نے ایک مسلمان کو وزیر تک نہیں بنایا ہو، اس نے اپنے ووٹرس کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ مسلمانوں کے نکیل ڈال رہے ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کو ایک پیغام دے رہے ہیں کہ ان کے دن لد گئے، اور وہ اب کسی معاملے پر ویٹو کرنے لائق نہیں رہیں گے۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس بل میں ترمیم کی آڑ میں مسلمانوں کے پاس جو زمینیں ہیں، ان کو اپنے دائرۂ اختیار میں لے کر اپنے کاروباری دوستوں کو دے سکتے ہیں۔ جو زمینیں نہ تو کاروبار کے لئے سود مند ہیں اور نہ ہی اپنی پارٹی کے لوگوں کے لئے، انہیں وہ ایسے ہی رہنے دیں گے۔ یعنی دو بڑے فائدے ایک سیاسی اور ایک تجارتی۔
ایسا نہیں ہے کہ اس کا سیاسی فائدہ صرف برسر اقتدار اتحاد یا جماعت کو ہی ہوا ہے، بلکہ اس کا سیاسی فائدہ حزب اختلاف کے انڈیا نامی اتحاد کو بھی ہوا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ مسلمان اور آزاد خیال ہندوستانی ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں۔ برسر اقتدار اتحاد کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سماج کا ایک بڑا طبقہ انڈیا نامی اتحاد میں ہی اپنی بقا سمجھنے لگا ہے۔ پیسے کے اعتبار سے اس اتحاد میں شامل پارٹیوں کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
اس ترمیمی بل کے بہت سے پہلوؤں پر قائدین نے بحث کے دوران اور ذرائع ابلاغ نے اپنی خبروں کے ذریعہ روشنی ڈال دی ہے، لیکن جس بات کا سب سے زیادہ ذکر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا غیر مسلموں کے ایسے اداروں میں بھی غیر طبقہ کے لوگ شامل ہوں گے، اور اگر نہیں تو پھر وقف ایکٹ میں تبدیلی کر کے ایسا کیوں کیا گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برسر اقتدار اتحاد اس کا زیادہ سیاسی فائدہ نہیں اٹھا پاتا، اگر ان ترامیم کی مخالفت اس پیمانے پر نہیں ہوتی۔ حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں کی بھی اس بل کی مخالفت مجبوری بن گئی تھی۔ اب یہ سیاسی جنگ عدالت سے سڑکوں پر خوب دیکھنے کو ملے گی۔ اس میں مسلمان بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور اس کا سیدھا فائدہ برسر اقتدار اتحاد کو عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے میں ہوگا۔
اس بل کا پیغام عوام میں جا چکا ہے، بس اب اس کی آنچ میں روٹی سیکنی ہے اور ضرورت کے حساب سے آنچ تیز اور ہلکی کرنی ہے۔ ظاہر ہے جو چولہے پر روٹی سینکنے کا کام کر رہا ہے اس کو، یعنی برسر اقتدار اتحاد کو ہی یہ کام کرنا ہے۔ اس میں حزب اختلاف کے انڈیا نامی اتحاد کو اگر ملک سے رغبت ہے اور وہ کسی بھی طرح سے برسر اقتدار اتحاد کے جال میں پھسنا نہیں چاہتے تو ان کو اس آگ کو بجھانے کا کام کرنا ہے۔ اس بل کا جو پیغام جانا تھا وہ جا چکا ہے اور ووٹر کو یہ بخوبی سمجھ میں آ گیا ہے کہ اس سے کسے کتنا فائدہ ہوگا اوریہ عوامی مسائل کی جانب حل کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس بل کی منظوری صرف اور صرف سیاسی و تجارتی ہے۔ اس سے کسی بھی غریب ہندوستانی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، لیکن وہی طبقہ سڑکوں پر نظر آئے گا۔
No Comments: