اسلام آباد: پاکستان ایک سنگین داخلی بحران سے دوچار ہے، جہاں ایک جانب خیبر پختونخوا میں پاکستانی فوجیوں کے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے ویڈیوز منظر عام پر آئے ہیں، تو دوسری جانب بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں نے ایک فوجی کیمپ پر قبضہ کر لیا ہے۔
ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی غیر مصدقہ ویڈیوز کے مطابق پاکستانی فوج کے متعدد جوانوں نے بغیر مزاحمت کے ٹی ٹی پی جنگجوؤں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اگرچہ آئی ایس پی آر نے ان مناظر کی تصدیق نہیں کی، لیکن ویڈیوز میں واضح طور پر طالبان جنگجوؤں کو فوجی اہلکاروں کو قیدی بناتے اور اسلحہ ضبط کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ادھر بلوچستان کے ضلع آواران میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے ایک پاکستانی فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا ہے۔ کئی گھنٹوں کی جھڑپ کے بعد کیمپ پر مکمل کنٹرول حاصل کیا گیا اور متعدد فوجی یا تو ہلاک ہو گئے یا قید کر لیے گئے۔
یہ سنگین حالات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستانی عوام میں فوج کے آمرانہ رویے اور سیاسی عمل میں مداخلت کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور مختلف شہروں میں سول سوسائٹی کی جانب سے فوجی اداروں کی مصنوعات اور کاروباری اداروں—جیسے فوجی فاؤنڈیشن، عسکری سیمنٹ اور دیگر—کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔
جب فوج عوام کو تحفظ دینے کے بجائے سیاسی مفادات کی محافظ بن جائے، دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور اپنے کاروبار چمکائے، تو عوام کیوں اس کی مصنوعات خریدیں؟
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کاروں کے حالیہ حملوں نے نہ صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے بلکہ پاک فوج کے ناقابلِ شکست ہونے کے تاثر کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی ان واقعات کو تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، اور پاکستان کے داخلی حالات مزید دگرگوں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
No Comments: