امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ بیرونی ممالک میں بننے والی فلموں پر 100 فیصد ٹیرف میں اضافہ کریں گے۔ ان کی طرف سے پہلے ہی اس طرح کے اقدامات دنیا بھر میں تنازع کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ وہ امریکی محکمہ تجارت کے نمائندے کو لیوی ٹیکس عائد کرنے کا عمل شروع کرنے کا اختیار دے رہے ہیں کیونکہ امریکہ کی فلم انڈسٹری ’بہت تیزی سے مر‘ رہی ہے یعنی تنزلی کی طرف جا رہی ہے۔
تو امریکی فلم انڈسٹری اور برطانیہ سمیت عالمی فلمی کاروبار دونوں کے لیے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
نئے ٹیرف کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ہالی وڈ ’مر رہی ہے۔‘ تو کیا یہ حقیقیت ہے؟ یہ سچ ہے کہ انڈسٹری حالیہ برسوں میں واقعی مشکل وقت سے گزر رہی ہے۔
کورونا وائرس کے بعد ہالی وڈ انڈسٹری میں فلموں کی پروڈکشن اور ترقی جیسے رک کر رہ گئی تھی اور اس کے اثرات ابھی بھی جاری ہیں۔
ہالی وڈ سٹوڈیوز نے 2024 کی دوسری سہ ماہی میں پروڈکشنز پر 11.3 ارب ڈالر خرچ کیے جو کہ 2022 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 20 فیصد کم بنتے ہیں۔ سٹوڈیوز نے کورونا وائرس کے نقصانات سے باہر نکلنے کی کوشش میں اخراجات میں کمی کرنا جاری رکھی۔
سنہ 2023 کے اداکاروں اور مصنفین کی ہڑتالوں کے بعد اس خسارے سے باہر نکلنے اور منافع کی طرف جانے کی کوششوں کو شدید دھچکہ لگا۔
پھر اس سال کے شروع میں جنگل میں آگ لگ گئی۔ اور اب کئی برسوں سے نوجوانوں کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ لوگ یوٹیوب اور دیگر سٹریمنگ پلیٹ فارمز کا رخ کر رہے ہیں۔
امریکہ فلم پروڈکشن کا ایک بڑا مرکز بنا ہوا ہے اور ’ورائٹی‘ کے مطابق سنہ 2025 میں باکس آفس کے اعداد و شمار میں پچھلے سال سے تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ سنہ 2024 میں اب تک مجموعی طور پر ملکی آمدنی میں 15.8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
’مارول کی تازہ ترین سپر ہیرو فلم ’تھنڈربولٹس‘ اس ہفتے کے آخر میں شمالی امریکہ کے باکس آفس پر سرفہرست رہی، جس نے اندازاً 76 ملین ڈالر کمائے۔ اور یوں اس فلم نے گرمیوں کے موسم کا ایک امید افزا آغاز فراہم کیا۔
لیکن ہالی وڈ یقینی طور پر اب بھی اس مقام تک دوبارہ نہیں پہنچ سکا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ’امریکہ میں باہر کے ممالک سے بن کر آنے والی تمام فلموں پر 100 فیصد ٹیرف لگانے کے عمل کو فوری طور پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم دوبارہ امریکہ میں بننے والی فلمیں چاہتے ہیں۔‘
اس سے یہ سوالات پیدا ہوئے کہ کیا ان محصولات کا نفاذ بیرون ملک فلمیں بنانے والی امریکی فلم کمپنیوں پر بھی ہوگا۔
امریکی سٹوڈیوز کی تیار کردہ کئی حالیہ بڑی فلموں کی شوٹنگ امریکہ سے باہر کی گئی، جن میں ڈیڈ پول اینڈ وولورین، وِکڈ اور گلیڈی ایٹر ٹو شامل ہیں۔ ’مشن امپاسیبل‘ جیسی ہٹ فرنچائز بھی بیرون ملک شوٹنگ کرتی ہیں۔
ہمیں ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ آیا ٹیرف کا اطلاق ایسی امریکی کمپنیوں پر بھی ہوگا۔
ٹرمپ نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ ’دوسری قومیں امریکہ سے فلمیں اور فلم بنانے کی صلاحیتیں چرا رہی ہیں۔‘ جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ صرف غیر امریکی فلموں کا حوالہ دے رہے تھے۔ تاہم ہمیں مزید تفصیل کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘
نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ کی طرح کے بہت سے ممالک فلم پروڈکشن کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دیتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جسے ٹرمپ لینا چاہتے ہیں۔
لیکن یہ واحد وجہ نہیں ہے کہ ایک امریکی فلم کمپنی بیرون ملک فلم بنانا چاہتی ہے۔
یہ کمپنیاں کچھ مخصوص جگہوں اور بیرون ملک دلچسپ مناظر کی خاطر ایسا کرتی ہیں۔ مشن: امپاسبل۔۔ گھوسٹ پروٹوکول میں ٹام کروز کے برج خلیفہ پر چڑھنے کے منظر کو کون بھول سکتا ہے؟
جیمز بانڈ کی آنے والی فلم پر ٹرمپ کے اس اقدام سے کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔ یہ ایک فرنچائز جو اب امریکی کمپنی ایمیزون کی ملکیت ہے لیکن یہ ایک مشہور برطانوی کردار پر مبنی ہے، جو لندن میں مقیم ایم آئی سکس کے لیے کام کرتا ہے؟
اور یہ صرف دوسرے ممالک ہی نہیں جو اپنی فلم انڈسٹری کو مراعات کی پیشکش کرتے ہیں بلکہ دوسری امریکی ریاستوں کی بھی ہالی وڈ سے دوری کا ذریعہ بن رہی ہے۔
جارجیا، الانوئے اور کینٹکی کئی دیگر امریکی ریاستوں میں سے ہیں جن کا کیلیفورنیا اب مقابلہ کر رہا ہے۔
کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم، جنھیں ٹرمپ نے پیر کے روز فلموں کے ٹیرف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’مکمل طور پر نااہل‘ قرار دیا تھا، فی الحال ریاست کی فلم اور ٹی وی ٹیکس مراعات کو دگنا سے بڑھا کر 750 ملین ڈالر سالانہ کرنے کے اپنے منصوبے پر زور دے رہے ہیں۔
جب کہ گیون نیوزم نے ٹرمپ کی تجویز پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، ان کے سینئر کمیونیکیشن ایڈوائزر نے ڈیڈ لائن جریدے کو بتایا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ اس کے پاس انٹرنیشنل اکنامک ایمرجنسی پاورز ایکٹ کے تحت ٹیرف لگانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘
اس وقت ٹیرف کے معاملے پر جوابات سے زیادہ سوالات ہیں۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) نے 2026 تک ڈیجیٹل سامان کے ٹیرف پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ممکنہ طور پر فلموں کو ڈیجیٹل سامان کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔
اور وہ ٹیرف کس بنیاد پر عائد کریں گے؟ باکس آفس کی آمدنی یا فلموں کی پروڈکشن لاگت پر؟ کیا اس میں آن لائن سٹریمنگ والا مواد شامل ہے؟ اس کا نیٹ فلیکس جیسی امریکی کمپنیوں پر بہت بڑا اثر پڑے گا۔ پوسٹ پروڈکشن یعنی ایڈیٹنگ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ویو انٹرٹینمنٹ کے سی ای او اور بانی ٹم رچرڈز نے بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام ‘ٹوڈے’ کو بتایا کہ ‘اس کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جو امریکی فلم کو تشکیل دیتا ہے۔ کیا یہ اس بارے میں ہو گا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا، سکرپٹ، ڈائریکٹر، ٹیلنٹ، اور یہ کہ فلم کہاں شوٹ کی گئی؟’
اور آپ ایک غیر ملکی فلم کی درجہ بندی کیسے کرتے ہیں جب کہ بہت ساری مشترکہ پروڈکشن ہیں اور اکثر کئی ممالک میں شوٹ کی جاتی ہیں؟
ٹرمپ ٹی وی کے بجائے فلم کے بارے میں بات کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس مرحلے پر یہ سو فیصد واضح نہیں ہے۔ کیا سٹریمنگ یا صرف سنیما ریلیز کے لیے بنائی گئی فلموں پر ٹیرف لاگو ہوں گے؟ ہمیں مزید تفصیل کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اور یقیناً، ٹرمپ تجاویز پر فیصلہ واپس لے سکتے ہیں جیسا کہ انھوں نے کچھ دوسرے ٹیرف کے ساتھ کیا ہے۔
No Comments: