فضل حسن
ممبئی:جب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو اپنے بیل آؤٹ پیکیج کے تحت ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط جاری کی، تو عالمی مالیاتی حلقوں نے اسے معاشی استحکام کی طرف ایک قدم کے طور پر سراہا۔ لیکن اس مالی لین دین کے پیچھے ایک نہایت تشویشناک سوال پوشیدہ ہے۔
کیا آئی ایم ایف بلاواسطہ طور پر ایسے ریاستی نظام کو جواز فراہم کر رہا ہے جس کی جڑیں عالمی دہشتگردی سے جڑی ہوئی ہیں؟
اس معاملے کے مرکز میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری موجود ہیں، جو اس وقت پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر کے عہدے پر فائز ہیں۔ جو بات آئی ایم ایف اور دنیا کو نظر انداز نہیں کرنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ وہ سلطان بشیرالدین محمود کے صاحبزادے ہیں ،— وہی شخص جو عالمی دہشتگرد قرار دیے جا چکے ہیں۔
بشیرالدین محمود، جو کبھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے معمار سمجھے جاتے تھے، بعد ازاں انہوں نے امّت تعمیرِ نو (یو ٹی این) کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جسے اقوامِ متحدہ اور امریکہ نے القاعدہ اور طالبان کی مدد کرنے پر پابندیوں کا نشانہ بنایا۔
یہ صرف الزامات نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹس میں واضح طور پر درج ہے کہ اگست 2001 میں، یعنی 9؍11 حملوں سے چند ہفتے قبل محمود اور ان کے ساتھی نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سے قندھار میں ملاقات کی، جہاں انہوں نے مبینہ طور پر القاعدہ کو ایٹمی، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں خفیہ معلومات فراہم کیں۔
ان کی تنظیم یو ٹی این نے طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے، الراشد ٹرسٹ اور جیش محمد جیسی دہشتگرد تنظیموں سے وابستگی رکھی، اور طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں کی تعمیرِ نو میں مالی مدد فراہم کی۔ محمود نے ملا عمر سے کئی بار ملاقاتیں کیں اور طالبان کے غیر سرکاری سفیر کے طور پر کام کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کا بیٹا پاکستان کی فوج کا ترجمان کیسے بن سکتا ہے؟ اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کیا آئی ایم ایف نے یہ اربوں ڈالر کی قسط جاری کرنے سے پہلے ان تعلقات کی کوئی چھان بین کی؟
آئی ایم ایف کو اپنے فیصلوں کے وسیع تر اثرات کو سمجھنا ہوگا۔ اگر وہ بغیر کسی جوابدہی کے پاکستان جیسے ملک کو بیل آؤٹ دے رہا ہے، تو وہ ممکنہ طور پر ایک ایسے نظام کو طاقت دے رہا ہے جہاں انتہاپسند نظریات اب بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔حال ہی میں القاعدہ برصغیر(اے کیوآئی ایس) کی جانب سے بھارت کو دھمکیاں اور پاکستان کے لیے حمایت کے بیانات نے اس خطرے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
یہ مضمون کسی بھی مالی مدد کے خلاف نہیں بلکہ شرائط کے ساتھ شفافیت کا مطالبہ ہے۔ آئی ایم ایف کو چاہیے کہ وہ ایسی کسی بھی مالی معاونت سے قبل پاکستان سے مکمل شفافیت، دہشتگردی سے مکمل لاتعلقی اور جمہوری و پرامن اصولوں سے وابستگی کا عملی مظاہرہ طلب کرے۔دنیا مزید یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے فنڈز ایسے نظام کو فراہم کرے جو بظاہر دہشتگردی کے خلاف ہے، مگر اندرونِ خانہ اس کا سہولت کار ہو۔ وقت آ گیا ہے کہ آئی ایم ایف اس مشکل سوال کا جواب دے،کیا وہ معاشی بحالی میں مدد دے رہا ہے، یا دہشتگردی کے بنیادی ڈھانچے کی فنڈنگ کر رہا ہے؟
No Comments: